EN हिंदी
پانی کو آگ کہہ کے مکر جانا چاہئے | شیح شیری
pani ko aag kah ke mukar jaana chahiye

غزل

پانی کو آگ کہہ کے مکر جانا چاہئے

یوسف ظفر

;

پانی کو آگ کہہ کے مکر جانا چاہئے
پلکوں پہ اشک بن کے ٹھہر جانا چاہئے

صوت و سخن کے دائرے تحلیل ہو گئے
قوس نظر سے دل میں اتر جانا چاہئے

احساس کی زباں کو لغت سے نکال کر
معنی کی سرحدوں سے گزر جانا چاہئے

دنیا کی وسعتیں ہیں بہ اندازۂ نظر
یہ دیکھنے کا کام ہے کر جانا چاہئے

تنہا نظر پہ کیجیے کس دل سے اعتبار
دل کو بھی تا بہ حد نظر جانا چاہئے

غم ہائے زندگی سے نہ تھا عمر بھر فراغ
اب کچھ تو زندگی کو سنور جانا چاہئے

جاؤں کہاں کہ خود مری راہیں سفر میں ہیں
راہیں سفر میں ہوں تو کدھر جانا چاہئے

زنجیری‌ مکاں ہے جہاں حسن لا مکاں
اس انجمن میں بار دگر جانا چاہئے

زمزم حریم کعبہ میں ہے مامتا کا دل
ہے شرط زیست ڈوب کے مر جانا چاہئے

جاں ہو اگر متاع طلب سے عزیز تر
پروانوں کو چراغ سے ڈر جانا چاہئے

یارو سنا ہے آپ میں گم ہو گیا ظفرؔ
اس خانماں خراب کے گھر جانا چاہئے