پائیں جو روشنی تری جلوہ گری سے ہم
ہو لیں قریب اور بھی کچھ بے خودی سے ہم
کر لے قبول حسن کے صدقہ میں جان و دل
فریاد کر رہے ہیں تری دلبری سے ہم
ایسا نصیب میرا کہاں میرے ہم زباں
کچھ دیر بات کرتے جو ہنس کر کسی سے ہم
اے حسن مجھ کو حسن کے صدقہ کی بھیک دے
پھیلائے ہاتھ بیٹھے ہیں کس عاجزی سے ہم
ٹھکراؤ لاکھ مجھ کو تمہیں اختیار ہے
پھر بھی نہ باز آئیں گے اس بندگی سے ہم
غزل
پائیں جو روشنی تری جلوہ گری سے ہم
نور محمد نور