EN हिंदी
اوس پڑی تھی رات بہت اور کہرہ تھا گرمائش پر | شیح شیری
os paDi thi raat bahut aur kohra tha garmaish par

غزل

اوس پڑی تھی رات بہت اور کہرہ تھا گرمائش پر

گلزار

;

اوس پڑی تھی رات بہت اور کہرہ تھا گرمائش پر
سیلی سی خاموشی میں آواز سنی فرمائش پر

فاصلے ہیں بھی اور نہیں بھی ناپا تولا کچھ بھی نہیں
لوگ بضد رہتے ہیں پھر بھی رشتوں کی پیمائش پر

منہ موڑا اور دیکھا کتنی دور کھڑے تھے ہم دونوں
آپ لڑے تھے ہم سے بس اک کروٹ کی گنجائش پر

کاغذ کا اک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی پر
دل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر

دل کا حجرہ کتنی بار اجڑا بھی اور بسایا بھی
ساری عمر کہاں ٹھہرا ہے کوئی ایک رہائش پر

دھوپ اور چھاؤں بانٹ کے تم نے آنگن میں دیوار چنی
کیا اتنا آسان ہے زندہ رہنا اس آسائش پر

شاید تین نجومی میری موت پہ آ کر پہنچیں گے
ایسا ہی اک بار ہوا تھا عیسیٰ کی پیدائش پر