اوس کی تمنا میں جیسے باغ جلتا ہے
تو نہ ہو تو سینے کا داغ داغ جلتا ہے
چاند چل دیا چپ چاپ سو گئے ستارے بھی
رات کی سیاہی میں دل کا داغ جلتا ہے
موت اک کہانی ہے زیست جاودانی ہے
اک چراغ بجھتا ہے اک چراغ جلتا ہے
قتل گاہ سے لے کر قاتلوں کے دامن تک
خون ناحق فرہاد کا سراغ جلتا ہے
ساتھیوں سے دوری میں اک جہاں سے دوری ہے
مے میں دم نہیں ساقی اور ایاغ جلتا ہے
غزل
اوس کی تمنا میں جیسے باغ جلتا ہے
صفدر میر