عہدے سے تیرے ہم کو بر آیا نہ جائے گا
یہ ناز ہے تو ہم سے اٹھایا نہ جائے گا
ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
آتش تو دی تھی خانۂ دل کے تئیں میں آپ
پر کیا خبر تھی یہ کہ بجھایا نہ جائے گا
ہوتے ترے محال ہے ہم درمیاں نہ ہوں
جب تک وجود شخص ہے سایا نہ جائے گا
مجرم ہوں وہ کہ ایک فقط روز باز پرس
نامہ مرے عمل کا دکھایا نہ جائے گا
ہے خواجہ آج نام کے پیچھے یہ سب خراب
غافل کہ کل نشان بھی پایا نہ جائے گا
قائمؔ خدا بھی ہونے کو جو جانتے ہیں ننگ
بندہ تو ان کے پاس کہایا نہ جائے گا

غزل
عہدے سے تیرے ہم کو بر آیا نہ جائے گا
قائم چاندپوری