EN हिंदी
نور و نکہت کی یہ برسات کہاں تھی پہلے | شیح شیری
nur-o-nikhat ki ye barsat kahan thi pahle

غزل

نور و نکہت کی یہ برسات کہاں تھی پہلے

مہیش چندر نقش

;

نور و نکہت کی یہ برسات کہاں تھی پہلے
زندگی اتنی حسیں رات کہاں تھی پہلے

اب تو پلکوں پہ ستارے سے لرز اٹھتے ہیں
غم محبوب کی یہ بات کہاں تھی پہلے

تیری یادوں سے فروزاں ہیں فضائیں جن کی
ایسی راتوں سے ملاقات کہاں تھی پہلے

ان کی بدمست نگاہوں کا کرم ہے اے دل
زندگی بزم خرابات کہاں تھی پہلے

کیف یہ درد محبت نے کیا ہے پیدا
یہ دل آویزیٔ نغمات کہاں تھی پہلے

آج یوں دل کے تڑپنے کا بھرم ٹوٹا ہے
حسرت لطف و عنایات کہاں تھی پہلے

نقشؔ ان شوخ نگاہوں کا فسوں ہے ورنہ
دل میں یہ شورش جذبات کہاں تھی پہلے