نقوش عمر گزشتہ سمیٹ لاتے ہیں
یہ رنگ رنگ کے بادل کہاں سے آتے ہیں
کبھی کبھی سفر زندگی سے روٹھ کے ہم
ترے خیال کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں
تصورات کے حسرت کدے میں کون آیا
چراغ تا حد احساس جلتے جاتے ہیں
ہمیں ہے ڈر کوئی تار امید ٹوٹ نہ جائے
سنبھل سنبھل کے انہیں حال دل سناتے ہیں
بنا گئے ہیں وہ یوں ساز آرزو گھر کو
کہ آج تک در و دیوار گنگناتے ہیں
انہیں سے ہے مرے اشکوں کی آبرو کوثرؔ
جو آب و رنگ غزل کو غزل بناتے ہیں
غزل
نقوش عمر گزشتہ سمیٹ لاتے ہیں
کوثر جائسی