نمایاں جب وہ اپنے ذہن کی تصویر کرتا ہے
ہر اک اہل محبت کو بہت دلگیر کرتا ہے
وہ کیوں مسرور ہوتا ہے ہمارا خون بہنے سے
سر حق کس لیے ظالم تہ شمشیر کرتا ہے
وفا کا نام لیتا ہے وفا نا آشنا ہو کر
وہ خود کو انتہائی پارسا تعبیر کرتا ہے
جسے محروم ہونا ہے وہی ہے مطمئن یارو
جو ہے نصرت کا طالب ہر قدم تدبیر کرتا ہے
ہر اک انسان کے اعمال بھی یکساں نہیں ہوتے
کوئی گھر توڑ دیتا ہے کوئی تعمیر کرتا ہے
صداقت پر کبھی ان کا اثر ہونے نہیں پاتا
وہ اپنے کارناموں کی بہت تشہیر کرتا ہے
کوئی بھی مسئلہ ابرارؔ حل ہونے نہیں پاتا
مسائل وہ ہمارے صورت کشمیر کرتا ہے
غزل
نمایاں جب وہ اپنے ذہن کی تصویر کرتا ہے
ابرار کرتپوری