EN हिंदी
نمایاں جب وہ اپنے ذہن کی تصویر کرتا ہے | شیح شیری
numayan jab wo apne zehn ki taswir karta hai

غزل

نمایاں جب وہ اپنے ذہن کی تصویر کرتا ہے

ابرار کرتپوری

;

نمایاں جب وہ اپنے ذہن کی تصویر کرتا ہے
ہر اک اہل محبت کو بہت دلگیر کرتا ہے

وہ کیوں مسرور ہوتا ہے ہمارا خون بہنے سے
سر حق کس لیے ظالم تہ شمشیر کرتا ہے

وفا کا نام لیتا ہے وفا نا آشنا ہو کر
وہ خود کو انتہائی پارسا تعبیر کرتا ہے

جسے محروم ہونا ہے وہی ہے مطمئن یارو
جو ہے نصرت کا طالب ہر قدم تدبیر کرتا ہے

ہر اک انسان کے اعمال بھی یکساں نہیں ہوتے
کوئی گھر توڑ دیتا ہے کوئی تعمیر کرتا ہے

صداقت پر کبھی ان کا اثر ہونے نہیں پاتا
وہ اپنے کارناموں کی بہت تشہیر کرتا ہے

کوئی بھی مسئلہ ابرارؔ حل ہونے نہیں پاتا
مسائل وہ ہمارے صورت کشمیر کرتا ہے