نوک شمشیر کی گھات کا سلسلہ یوں پس آئنہ کل اتارا گیا
میری پہچان کے عکس جتنے بنے کوئی زخمی ہوا کوئی مارا گیا
غیر محسوس رستوں سے آتی رہی اک صدا واپسی کی مرے کان میں
گویا گونگے اشاروں کی دہلیز پر مجھ کو آنکھوں سے اس دن پکارا گیا
یہ نہ پوچھے کوئی موسم رنگ کی پہلی پہلی عداوت نے کیا دکھ دیئے
پھول کی آگ پر شب گزاری گئی خار کی نوک پر دن گزارا گیا
آج اس کے لہو کی ہر اک بوند کے زرد ہونے پہ خوشیاں منائی گئیں
کچھ دنوں پہلے جس رہنما کے لئے چاند تاروں سے رستہ سنوارا گیا
آپ پی پی کے لمحوں کی سب بارشیں زندگی کے مکاں پر برستی رہیں
اس لیے تو پگھل کر مرے جسم کی ساری مٹی گئی سارا گارا گیا
وہ جو اونچے محل تھے مرے سامنے غور سے ان کو دیکھا تو مجھ پر کھلا
کن مناروں سے چاندی چرائی گئی کن مناروں سے سونا اتارا گیا
غزل
نوک شمشیر کی گھات کا سلسلہ یوں پس آئنہ کل اتارا گیا
سورج نرائن