نظام گلشن ہستی بدل کے دم لیں گے
حدود رنج و الم سے نکل کے دم لیں گے
شعور حاصل مقصد جسے سمجھتا ہے
یہ عزم ہے اسی منزل پہ چل کے دم لیں گے
متاع امن لٹائیں گے ہم زمانے میں
نظام جبر و تشدد کچل کے دم لیں گے
ندیم بحر مصیبت میں صورت طوفاں
مچل مچل کے اٹھیں گے سنبھل کے دم لیں گے
نہیں پسند رواج کہن ہمیں قیصرؔ
نئے نظام کے سانچے میں ڈھل کے دم لیں گے
غزل
نظام گلشن ہستی بدل کے دم لیں گے
قیصر نظامی