نظام فکر نے بدلا ہی تھا سوال کا رنگ
جھلک اٹھا کئی چہروں سے انفعال کا رنگ
نہ گل کدوں کو میسر نہ چاند تاروں کو
ترے وصال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ
ذرا سی دیر کو چہرے دمک تو جاتے ہیں
خوشی کا رنگ ہو یا ہو غم و ملال کا رنگ
زمانہ اپنی کہانی سنا رہا تھا ہمیں
ابھر گیا مگر آغاز میں مآل کا رنگ
اسیر وقت ہے تو میں ہوں وقت سے آزاد
ترے عروج سے اچھا مرے زوال کا رنگ
بسان تختۂ گل میری فکر ہے آزاد
مثال قوس قزح ہے مرے خیال کا رنگ
غزل
نظام فکر نے بدلا ہی تھا سوال کا رنگ
اعجاز صدیقی