نیاز و ناز کی یہ شان زیبائی نہیں جاتی
ہماری خود سری ان کی خود آرائی نہیں جاتی
ہزاروں آئینے ہو کر مقابل ٹوٹ جاتے ہیں
مگر حسن ازل کی شان یکتائی نہیں جاتی
کوئی دل کش نظارہ ہو کوئی دلچسپ منظر ہو
طبیعت خود بہل جاتی ہے بہلائی نہیں جاتی
محبت کی حقیقت کم نہیں اسرار ہستی سے
سمجھ لیتا ہوں لیکن مجھ سے سمجھائی نہیں جاتی
بظاہر ضبط پیہم بھی شریک درد الفت ہے
شکیلؔ اس پر بھی اپنے دل کی رسوائی نہیں جاتی
غزل
نیاز و ناز کی یہ شان زیبائی نہیں جاتی
شکیل بدایونی