نیاز آگیں ہے اور ناز آفریں بھی
اگر سجدہ میں جھک جائے جبیں بھی
حق آگاہی سے اٹھ جائیں گے پردے
نظر ہو نکتہ رس بھی نکتہ چیں بھی
دلوں میں چاہئے وسعت گاہی
بدل جاتی ہے چشم خشمگیں بھی
حقائق پر جمی ہے گرد باطل
ہے گم وہموں میں احساس یقیں بھی
سلامت ان کا دامن بے خودی میں
لیا ہے ہم نے کار آستیں بھی
اجالے ہیں مرے قلب و نظر کے
یہ مہر ضو فشاں ماہ مبیں بھی
بہ فیض تلخیٔ حالات رونقؔ
عبارت زہر سے ہے انگبیں بھی

غزل
نیاز آگیں ہے اور ناز آفریں بھی
رونق دکنی