EN हिंदी
نت نئی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھتا ہوں میں | شیح شیری
nit-nai KHush-fahmiyon mein mubtala rakhta hun main

غزل

نت نئی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھتا ہوں میں

خالد شیرازی

;

نت نئی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھتا ہوں میں
خلق کے ہاتھوں کو مصروف دعا رکھتا ہوں میں

خشک دھرتی کو عطا کرتا ہوں سایہ ابر کا
قطرۂ باراں پہ دریا کی بنا رکھتا ہوں میں

ڈھونڈھ ہی لیتی ہے مجھ کو ڈھونڈنے والی نظر
اپنے سائے کو اگرچہ لاپتا رکھتا ہوں میں

کیوں بھلا آسودگی میرے مقدر میں نہیں
کس لیے دن رات خود کو جاگتا رکھتا ہوں میں

پھونکتا رہتا ہوں بحر لفظ میں خالدؔ فسوں
موج معنی کو تلاطم آشنا رکھتا ہوں میں