نت نئی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھتا ہوں میں
خلق کے ہاتھوں کو مصروف دعا رکھتا ہوں میں
خشک دھرتی کو عطا کرتا ہوں سایہ ابر کا
قطرۂ باراں پہ دریا کی بنا رکھتا ہوں میں
ڈھونڈھ ہی لیتی ہے مجھ کو ڈھونڈنے والی نظر
اپنے سائے کو اگرچہ لاپتا رکھتا ہوں میں
کیوں بھلا آسودگی میرے مقدر میں نہیں
کس لیے دن رات خود کو جاگتا رکھتا ہوں میں
پھونکتا رہتا ہوں بحر لفظ میں خالدؔ فسوں
موج معنی کو تلاطم آشنا رکھتا ہوں میں

غزل
نت نئی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھتا ہوں میں
خالد شیرازی