نت نئے رنگ سے کرتا رہا دل کو پامال
بربط جاں میں سمایا ہوا اک حسن ملال
عمر کاٹی ہے گھنی چھاؤں میں زلفوں کی بہت
آؤ اب رنج کی دہلیز پہ سجدے کچھ سال
وہ بدن جس کا اجالا تھا ہماری جنت
دھیان میں اس کے ہوئے آج مگر کیسے نڈھال
گوری باہیں بھی حمائل رہا کرتی تھیں کبھی
اور اب سر بھی اٹھانا ہوا زانو سے محال
تو میسر تھا تو دل میں تھے ہزاروں ارماں
تو نہیں ہے تو ہر اک سمت عجب رنگ ملال
ہر طرف اپنے اندھیرا ہی اندھیرا لیکن
آسماں پر یہ ستاروں کا چمکتا ہوا جال
غزل
نت نئے رنگ سے کرتا رہا دل کو پامال
احمد ہمدانی