نسبت ہی کسی سے ہے نہ رکھتے ہیں حوالے
ہاں ہم نے جلا ڈالے ہیں رشتوں کے قبالے
بے روح ہیں الفاظ کہیں بھی تو کہیں کیا
ہے کون جو معنی کے سمندر کو کھنگالے
جس سمت بھی جاؤں میں بکھر جانے کا ڈر ہے
اس خوف مسلسل سے مجھے کون نکالے
میں دشت تمنا میں بس اک بار گئی تھی
اس وقت سے رستے ہیں مرے پاؤں کے چھالے
بے چہرہ سہی پھر بھی حقیقت ہے حقیقت
سکہ تو نہیں ہے جو کوئی اس کو اچھالے
ثروتؔ کو اندھیروں سے ڈرائے گا کوئی کیا
وہ ساتھ لیے آئی ہے قدموں کے اجالے

غزل
نسبت ہی کسی سے ہے نہ رکھتے ہیں حوالے
نور جہاں ثروت