EN हिंदी
نسبت ہی کسی سے ہے نہ رکھتے ہیں حوالے | شیح شیری
nisbat hi kisi se hai na rakhte hain hawale

غزل

نسبت ہی کسی سے ہے نہ رکھتے ہیں حوالے

نور جہاں ثروت

;

نسبت ہی کسی سے ہے نہ رکھتے ہیں حوالے
ہاں ہم نے جلا ڈالے ہیں رشتوں کے قبالے

بے روح ہیں الفاظ کہیں بھی تو کہیں کیا
ہے کون جو معنی کے سمندر کو کھنگالے

جس سمت بھی جاؤں میں بکھر جانے کا ڈر ہے
اس خوف مسلسل سے مجھے کون نکالے

میں دشت تمنا میں بس اک بار گئی تھی
اس وقت سے رستے ہیں مرے پاؤں کے چھالے

بے چہرہ سہی پھر بھی حقیقت ہے حقیقت
سکہ تو نہیں ہے جو کوئی اس کو اچھالے

ثروتؔ کو اندھیروں سے ڈرائے گا کوئی کیا
وہ ساتھ لیے آئی ہے قدموں کے اجالے