EN हिंदी
نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی | شیح شیری
nisar us par na hone se na tang aaya na aar aai

غزل

نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی

کیفی حیدرآبادی

;

نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی
مرے کس کام آخر زندگئ مستعار آئی

یہیں دیکھا کہ غلبہ ایک کو ہوتا ہے لاکھوں پر
طبیعت ایک بار آئی ندامت لاکھ بار آئی

ترے دل سے ترے لب تک تری آنکھوں سے مژگاں تک
محبت بے قرار آئی مروت شرمسار آئی

شراب عشق سے کرنے کو تھا توبہ کہ یار آیا
مرے آڑے یہ نیکی کب کی اے پروردگار آئی

دل محزوں کی آہیں مست کرتی ہیں مجھے کیفیؔ
کہ جب لی سانس میں نے مجھ کو بوئے زلف یار آئی