EN हिंदी
نکلی وہ زندگی سے تو پامال ہو گیا | شیح شیری
nikli wo zindagi se to pamal ho gaya

غزل

نکلی وہ زندگی سے تو پامال ہو گیا

اشرف شاد

;

نکلی وہ زندگی سے تو پامال ہو گیا
جیسے رواں رواں مرا کنگال ہو گیا

بگڑا ہوا ہے ہجر میں کچھ وقت کا نظام
لمحہ گزر نہ پایا کہ اک سال ہو گیا

مشکل ہے یہ حساب کئی ہجرتوں کے بعد
اچھا ہے میرا حال کہ بد حال ہو گیا

بس یوں ہی اک غزل سی اسے دیکھ کر ہوئی
پھر اس کے بعد پیار کا جنجال ہو گیا

میں جب گلاب چوم رہا تھا تو دیکھ کر
چہرہ کسی کا شرم سے کیوں لال ہو گیا