نکلی وہ زندگی سے تو پامال ہو گیا
جیسے رواں رواں مرا کنگال ہو گیا
بگڑا ہوا ہے ہجر میں کچھ وقت کا نظام
لمحہ گزر نہ پایا کہ اک سال ہو گیا
مشکل ہے یہ حساب کئی ہجرتوں کے بعد
اچھا ہے میرا حال کہ بد حال ہو گیا
بس یوں ہی اک غزل سی اسے دیکھ کر ہوئی
پھر اس کے بعد پیار کا جنجال ہو گیا
میں جب گلاب چوم رہا تھا تو دیکھ کر
چہرہ کسی کا شرم سے کیوں لال ہو گیا
غزل
نکلی وہ زندگی سے تو پامال ہو گیا
اشرف شاد