نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے
سحر ہوئی تو خراشیں چنیں بچھونے سے
صدف لیے ہوئے ابھری ہے لاش بھی میری
بچا رہے تھے مجھے لوگ غرق ہونے سے
ہنر ہے تجھ میں تو قائل بھی کر زمانے کو
چمک اٹھے گی نہ شکل آئنے کو دھونے سے
لپٹ رہی ہیں مرے راستوں سے روشنیاں
نظر میں لوگ ہیں کچھ سانولے سلونے سے
لگا کے زخم بہانے چلا ہے اب آنسو
رکا ہے خون کہیں پٹیاں بھگونے سے
ہمیں نہ ہوں کہیں دیکھو تو غور سے لوگو
ہیں طفل وقت کے ہاتھوں میں کچھ کھلونے سے
مرے دکھوں سے بھی کچھ فائدہ اٹھا دنیا
زمیں کی پیاس بجھے بادلوں کے رونے سے
لہو رگوں میں مظفرؔ چھڑائے مہتابی
ملے ہے کیا اسے چنگاریاں چبھونے سے

غزل
نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے
مظفر وارثی