نکلنا ہو دل سے دشوار کیوں
یہ اک آہ ہے اس کا پیکاں نہیں
یہ ہاتھ اس کے دامن تلک پہنچے کب
رسائی جسے تاگریباں نہیں
فلک نے بھی سیکھے ہیں تیرے سے طور
کہ اپنے کیے سے پشیماں نہیں
مرا نامۂ شوق تلووں تلے
نہ ملیے یہ خون شہیداں نہیں
اسی کی سی کہنے لگے اہل حشر
کہیں پرسش داد خواہاں نہیں
غزل
نکلنا ہو دل سے دشوار کیوں
مفتی صدرالدین آزردہ