نکل رہا ہوں یقیں کی حد سے گماں کی جانب
سفر ہے میرا زمین سے آسماں کی جانب
منڈیر پر کوئی چشم تر تھی کہ آئنہ تھا
ستارۂ شام دیکھتا تھا مکاں کی جانب
یہ خواب ہے یا طلسم کوئی کہ خشک پتے
کھنچے چلے جا رہے ہیں آب رواں کی جانب
کوئی تو اوپر سے بوجھ ڈالا گیا ہے ورنہ
جھکا ہوا آسماں ہے کیوں خاکداں کی جانب
تو پھر مرے ساتھ اس کا چلنا محال ٹھہرا
دھیان رہتا تھا اس کا سود و زیاں کی جانب
سکونت قلب خالی سینے پہ ایسے اتری
اماں خودی چل کے آ گئی بے اماں کی جانب
غزل
نکل رہا ہوں یقیں کی حد سے گماں کی جانب
اکرم محمود