نکل کے گھر سے اور میداں میں آ کے
ذرا کچھ دیکھیے تیور ہوا کے
کوئی زندہ رہا ہے کب جہاں میں
چراغ دل کو اپنے خود بجھا کے
ہماری خامشی بھی اک نوا تھی
ملے کب سننے والے ہیں نوا کے
پشیماں ایک مدت تک رہا ہے
کوئی در سے مجھے اپنے اٹھا کے
یہ دل ہے دل اسے سینے میں ہرگز
کبھی رکھنا نہ تم پتھر بنا کے
فرازؔ اکثر رہا کرتا ہے تنہا
اندھیرے میں چراغ دل جلا کے

غزل
نکل کے گھر سے اور میداں میں آ کے
فراز سلطانپوری