نکل گئے تھے جو صحرا میں اپنے اتنی دور
وہ لوگ کون سے سورج میں جل رہے ہوں گے
عدم کی نیند میں سوئے ہوئے کہاں ہیں وہ اب
جو کل وجود کی آنکھوں کو مل رہے ہوں گے
ملے نہ ہم کو جواب اپنے جن سوالوں کے
کسی زمانے میں ان کے بھی حل رہے ہوں گے
بس اس خیال سے دیکھا تمام لوگوں کو
جو آج ایسے ہیں کیسے وہ کل رہے ہوں گے
پھر ابتدا کی طرف ہوگا انتہا کا رخ
ہم ایک دن یہاں شکلیں بدل رہے ہوں گے
ملالؔ ایسے کئی لوگ ہوں گے رستے میں
جو تم سے تیز یا آہستہ چل رہے ہوں گے

غزل
نکل گئے تھے جو صحرا میں اپنے اتنی دور (ردیف .. ے)
صغیر ملال