نیندوں کا ایک عالم اسباب اور ہے
شاید کسی کی آنکھ میں اک خواب اور ہے
تو مجھ کو طاق سینہ میں رکھا ہوا نہ جان
میں جس میں جل رہا ہوں وہ محراب اور ہے
یوں ہی نہیں یہ ضربت تیشہ کی دستکیں
لگتا ہے اک فصیل پس باب اور ہے
لہرا رہا ہے سطح پہ مہتاب غوطہ زن
ہر چند ایک شہر تہہ آب اور ہے
پھوٹی ہیں جس جگہ مری آنکھوں کی کونپلیں
دل سے پرے وہ خطۂ شاداب اور ہے
کھویا ہوا ہوں نیند کے پردے کے اس طرف
لگتا ہے ایک خواب پس خواب اور ہے
کرنیں تو اک نگاہ سبک رو کی لہر ہیں
دنبالہ دارئ شب مہتاب اور ہے
تابشؔ یہ تیرا عکس نہیں میری آنکھ میں
اس جھیل میں یہ پرتو زرتاب اور ہے
غزل
نیندوں کا ایک عالم اسباب اور ہے
عباس تابش