نیند کی سوداگری کرتا ہوں میں
بس یہی اک چاکری کرتا ہوں میں
لوگ جو کرتے نہیں ہیں عمر بھر
کام بس وہ دیگری کرتا ہوں میں
تاکتا رہتا ہوں میں تاروں کو یوں
جیسے آوارہ گری کرتا ہوں میں
کام میرا کچھ نہیں ہے بس مگر
ہر نفس صورت گری کرتا ہوں میں
کوئی اب کیسے مقابل ہو مرا
رہبری ہی رہبری کرتا ہوں میں

غزل
نیند کی سوداگری کرتا ہوں میں
خان رضوان