EN हिंदी
نیند آنکھوں میں ہے کم کم مجھے آواز نہ دو | شیح شیری
nind aankhon mein hai kam kam mujhe aawaz na do

غزل

نیند آنکھوں میں ہے کم کم مجھے آواز نہ دو

جاوید کمال رامپوری

;

نیند آنکھوں میں ہے کم کم مجھے آواز نہ دو
جاگ جائے گا کوئی غم مجھے آواز نہ دو

یوں بھی رفتار دل زار ہے مدھم مدھم
اور ہو جائے گی مدھم مجھے آواز نہ دو

نیم خاموش ہے ساز رگ جاں کا ہر تار
تار ہو جائیں گے برہم مجھے آواز نہ دو

بعد مدت کے ذرا دل کو قرار آیا ہے
جانے کیا دل کا ہو عالم مجھے آواز نہ دو