نیند آنکھوں میں ہے کم کم مجھے آواز نہ دو
جاگ جائے گا کوئی غم مجھے آواز نہ دو
یوں بھی رفتار دل زار ہے مدھم مدھم
اور ہو جائے گی مدھم مجھے آواز نہ دو
نیم خاموش ہے ساز رگ جاں کا ہر تار
تار ہو جائیں گے برہم مجھے آواز نہ دو
بعد مدت کے ذرا دل کو قرار آیا ہے
جانے کیا دل کا ہو عالم مجھے آواز نہ دو
غزل
نیند آنکھوں میں ہے کم کم مجھے آواز نہ دو
جاوید کمال رامپوری