نیند آئی ہی نہیں ہم کو نہ پوچھو کب سے
آنکھ لگتی ہی نہیں دل ہے لگایا جب سے
ان کو محبوب کہیں یا کہ رقیب اب اپنا
ان کو بھی پیار ہوا جائے ہے اپنی چھب سے
اشک آنکھوں سے مری نکلے مسلسل لیکن
اس نے اک حرف تسلی نہ نکالا لب سے
دل سکھاتا ہے سب آداب محبت کے خود
یہ سبق سیکھا نہیں جاتا کسی مکتب سے
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
میں بھی تو دیکھوں غرض سے جھکی آنکھیں ان کی
کاش آئیں وہ مرے پاس کبھی مطلب سے
بھیڑ ہم جیسوں کی رہتی ہے ہمیشہ یوں تو
روشنی ہوتی ہے محفل میں بس اک کوکب سے
مری آنکھوں کے لیے روشنی سے ہے بڑھ کر
تری زلفوں کی سیاہی جو ہے گہری شب سے
سیکھ نفرت کی نہ دے اے صداؔ مذہب کوئی
ہے اصول اپنا کئے جاؤ محبت سب سے
غزل
نیند آئی ہی نہیں ہم کو نہ پوچھو کب سے
صدا انبالوی