نیچی نگہ کی ہم نے تو اس نے منہ کو چھپانا چھوڑ دیا
کچھ جو ہوئی پھر اونچی تو رخ سے پردہ اٹھانا چھوڑ دیا
زلف سے جکڑا پہلے تو دل پھر اس کا تماشہ دیکھنے کو
نظروں کا اس پر سحر کیا اور کر کے دوانا چھوڑ دیا
اس نے اٹھایا ہم پہ طمانچہ ہم نے ہٹایا منہ کو جو آہ
شوخ نے ہم کو اس دن سے پھر ناز دکھانا چھوڑ دیا
بیٹھ کے نزدیک اس کے جو اک دن پاؤں کو ہم نے چوم لیا
اس نے ہمیں بے باک سمجھ کر لطف جتانا چھوڑ دیا
پھر جو گئے ہم ملنے کو اس کو دیکھ کے اس نے ہم کو نظیرؔ
یوں تو کہا ہاں آؤ جی لیکن پاس بٹھانا چھوڑ دیا
غزل
نیچی نگہ کی ہم نے تو اس نے منہ کو چھپانا چھوڑ دیا
نظیر اکبرآبادی