نہایت انکساری عاجزی سے بات کرتے ہیں
ہم ان سے جب وہ ہم سے بے رخی سے بات کرتے ہیں
ہمارے ساتھ ہو تو مختصر سی بات ہوتی ہے
چلا کرتی ہے پہروں جب کسی سے بات کرتے ہیں
ہمیں کہتے ہیں دیکھو بھئی کسی سے بات مت کرنا
اور اس پر خود جو ملتا ہے اسی سے بات کرتے ہیں
تمہیں ہو ایک جن کو بات کرنے کا سلیقہ ہے
ہمیں ہیں ایک جو بے ہودگی سے بات کرتے ہیں
ہوئے جاتے ہو کیوں کپڑوں سے باہر غیر کی سن کر
ذرا بیٹھو تسلی دلجمعی سے بات کرتے ہیں
کسی سے بات کرتے ہیں کسی کی بات ہوتی ہے
ارے باوا تمہاری کب کسی سے بات کرتے ہیں
بڑھائے دوستی کا ہاتھ دشمن بھی تہ دل سے
لگا لیتے ہیں سینے سے خوشی سے بات کرتے ہیں
اکیلے تھے ترستے تھے کسی سے بات کرنے کو
تو ہم نے سوچا آؤ شادؔ ہی سے بات کرتے ہیں
غزل
نہایت انکساری عاجزی سے بات کرتے ہیں
شاد بلگوی