EN हिंदी
نگہبان چمن اب دھوپ اور پانی سے کیا ہوگا | شیح شیری
nigahban-e-chaman ab dhup aur pani se kya hoga

غزل

نگہبان چمن اب دھوپ اور پانی سے کیا ہوگا

طارق متین

;

نگہبان چمن اب دھوپ اور پانی سے کیا ہوگا
مقدر میں ہے تاراجی نگہبانی سے کیا ہوگا

مسافت ہجر کی یہ سوچ کر طے کر رہے ہیں ہم
اگر مشکل نہیں ہوگی تو آسانی سے کیا ہوگا

دل ناداں نے سارے معرکے سر کر لیے آخر
یہ نادانی تھی ہم سمجھے تھے نادانی سے کیا ہوگا

نہ کچھ ہو کر بھی اپنی ذات میں اک انجمن ہیں ہم
عطیہ ہے یہ درویشی کا سلطانی سے کیا ہوگا

سلیقہ چاہئے کار جنوں کا اے جنوں والو
طواف دشت سے اور چاک دامانی سے کیا ہوگا

بہت دشوار ہے فکر غزل میں طاق ہو جانا
ہنر مندی ضروری ہے ہمہ دانی سے کیا ہوگا

خدا کی خاص نعمت ہے سکون جان و دل طارقؔ
پریشانی میں دولت کی فراوانی سے کیا ہوگا