EN हिंदी
نگہ کے سامنے اس کا جوں ہی جمال ہوا | شیح شیری
nigah ke samne us ka junhi jamal hua

غزل

نگہ کے سامنے اس کا جوں ہی جمال ہوا

نظیر اکبرآبادی

;

نگہ کے سامنے اس کا جوں ہی جمال ہوا
وہ دل ہی جانے ہے اس دم جو دل کا حال ہوا

اگر کہوں میں کہ چمکا وہ برق کی مانند
تو کب مثل ہے یہ اس کی جو بے مثال ہوا

قرار و ہوش کا جانا تو کس شمار میں ہے
غرض پھر آپ میں آنا مجھے محال ہوا

ادھر سے بھر دیا مے نے نگاہ کا ساغر
ادھر سے زلف کا حلقہ گلے کا جال ہوا

بہار حسن وہ آئے نظر جو اس کی نظیرؔ
تو دل وہیں چمن عشق میں نہال ہوا