نگہ شوق کو یوں آئنہ سامانی دے
عشق کو حسن بنا حسن کو حیرانی دے
دل نوازی میں بھی ایذا ہے محبت کی قسم
تجھ کو فرصت جو کبھی شغل ستم رانی دے
کچھ تری چشم سخن ساز کا ایما نہ کھلا
لب مے نوش کو تکلیف گل افشانی دے
پھول وہ ہے جو میسر چڑھے یہ سنتا تھا
اب کھلا دل کی رہ عشق میں قربانی دے
آئنہ سنگ در دوست ہوا بھی تو کیا
سر جو سجدے میں جھکے لو تری پیشانی دے
اف وہ پرکار جو سنتے ہی تغافل کا گلہ
عشوہ و ناز کو تعلیم پشیمانی دے
دل بیتاب تماشا کی تسلی معلوم
اپنے ہر جلوے کو اک پیکر انسانی دے
اس کی انگڑائی کا عالم تو کبھی دیکھ اے گل
اور ہی حسن تری چاک گریبانی دے
آؤ شیرازۂ ہستی کو پریشاں کر دیں
یوں کہ اس زلف کو پیغام پریشانی دے
تیری سرکار غنی تیرا گدا بھی ہے غنی
کچھ نہ دے اور جو دے غم کی فراوانی دے
اس توقع پہ ہوں خاموش کہ وہ شوخ نگاہ
پھر ٹہوکا پئے تقریب غزل خوانی دے
غزل
نگہ شوق کو یوں آئنہ سامانی دے
اثر لکھنوی