نگاہوں نے کئی سپنے بنے ہیں
سلائی میں مگر الجھے ہوئے ہیں
ازل سے آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں
یہ آنسو تو ہمارے منہ لگے ہیں
تصور میں تمہیں لا کر یہاں پر
بہت سے لوگ شاعر بن گئے ہیں
کسی بھی سمت جا کر دیکھ لیں ہم
تمہاری سمت ہی رستے کھلے ہیں
شجر کا امتحاں جاری رہے گا
ابھی تو شاخوں پر پتے بچے ہیں
نگاہ شوق تو دھندھلا گئی اب
چلو مسجد میں چل کر بیٹھتے ہیں
غزل
نگاہوں نے کئی سپنے بنے ہیں
سنیل کمار جشن