نگاہ طور پہ ہے اور جمال سینے میں
یہ کیفیت ہے ترا نام لے کے پینے میں
جنوں کو ہوش کہاں سانولے مہینے میں
کھلا ہوا ہے چمن آرزو کا سینے میں
چمن میں جب بھی ترے پیرہن کی بو آئی
بہار بھیگ گئی شرم سے پسینے میں
یوں ہی نہیں ہے سرور شب فراق اے دوست
کٹی ہے رات ستاروں کا نور پینے میں
تری نگاہ میں ہے صرف خطرۂ گرداب
یہ دیکھ سیکڑوں طوفان میں سفینے میں
جہاں گریں مرے آنسو گلاب کھل جائیں
بھرا ہوا ہے لہو دل کے آبگینے میں
یوں مسکرا کے ترا آنسوؤں کو پی جانا
کوئی تو راز ہے اے رمزؔ ایسے جینے میں

غزل
نگاہ طور پہ ہے اور جمال سینے میں
رمز عظیم آبادی