EN हिंदी
نگاہ و دل کے تمام رشتے فضائے عالم سے کٹ گئے ہیں | شیح شیری
nigah o dil ke tamam rishte faza-e-alam se kaT gae hain

غزل

نگاہ و دل کے تمام رشتے فضائے عالم سے کٹ گئے ہیں

شکیل جاذب

;

نگاہ و دل کے تمام رشتے فضائے عالم سے کٹ گئے ہیں
جدائیوں کے عذاب موسم بساط ہستی الٹ گئے ہیں

وہ جس کی یادوں سے شاعری کا ہر ایک مصرعہ سجایا ہم نے
کتاب جاں کے تمام صفحے اسی کے ہاتھوں سے پھٹ گئے ہیں

یہاں پہ کچھ بھی نہیں ہے باقی تو عکس اپنا تلاش مت کر
مری نگاہوں کے آئنے اب غبار فرقت سے اٹ گئے ہیں

یہی اثاثہ تھے زندگی کا یہ خواب ہی تھے مرا سہارا
ترے تغافل کے سنگریزوں سے کرچیوں میں جو بٹ گئے ہیں

یہ معجزہ تو نہیں ہے کوئی خراج ہے اپنی ہمتوں کا
کہ اپنے رستے میں آنے والے تمام کوہسار ہٹ گئے ہیں

خوش آ گیا ہے سفر میں جینا اسی لیے تو شکیل جاذبؔ
جہاں سے منزل قریب دیکھی وہیں سے واپس پلٹ گئے ہیں