EN हिंदी
نگاہ نیچی ہوئی ہے میری | شیح شیری
nigah nichi hui hai meri

غزل

نگاہ نیچی ہوئی ہے میری

شارق کیفی

;

نگاہ نیچی ہوئی ہے میری
یہ ٹوٹنے کی گھڑی ہے میری

پلٹ پلٹ کر جو دیکھتا ہوں
کوئی صدا ان سنی ہے میری

یہ کام دونوں طرف ہوا ہے
اسے بھی عادت پڑی ہے میری

تمام چہروں کو ایک کر کے
عجیب صورت بنی ہے میری

وہیں پہ لے جائے گی یہ مٹی
جہاں سواری کھڑی ہے میری