نگاہ یار سے ہوتا ہے وہ خمار مجھے
کہ رت خزاں کی بھی لگنے لگے بہار مجھے
فصیل عشق پہ رکھا ہوا چراغ ہوں میں
ہوائے ہجر کا رہتا ہے انتظار مجھے
جدائیاں ہیں مقدر تو پھر گلے کیسے
لکھے ہوئے پہ تجھے ہے نا اختیار مجھے
فقط زباں سے نا کہہ مجھ کو زندگی اپنی
میں زندگی ہوں تو اچھی طرح گزار مجھے
میں آئنہ تھا کبھی اب تو صرف شیشہ ہوں
یہ لوگ دیکھتے رہتے ہیں میرے پار مجھے

غزل
نگاہ یار سے ہوتا ہے وہ خمار مجھے
آصف رشید اسجد