نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شامل ارباب امتیاز کرے
غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے
امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے
ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
غزل
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
حسرتؔ موہانی