نگاہ شوق کو رخ پر نثار ہونے دو
یہ رنگ لائے گی کیا کیا بہار ہونے دو
رہین جذبۂ بے اختیار ہونے دو
جو ہو رہا ہے کوئی بے قرار ہونے دو
دل حزیں کو مرے جلوہ زار ہونے دو
خزاں نصیب چمن میں بہار ہونے دو
دل فراق زدہ میں قرار ہونے دو
دم اجل تو نگاہوں کو چار ہونے دو
کرشمے دیکھنا مر مر کے جینے والوں کے
تم اپنے کوچہ میں میرا مزار ہونے دو
تم اپنے وعدوں کی ایفا کرو امید نہیں
جہاں میں حسن کو بے اعتبار ہونے دو
شب فراق میں لو چل بسا تمہارا تاجؔ
قیام حشر تک اب انتظار ہونے دو
غزل
نگاہ شوق کو رخ پر نثار ہونے دو
ظہیر احمد تاج