نگاہ لطف کیا کم ہو گئی ہے
محبت اور محکم ہو گئی ہے
طبیعت کشتۂ غم ہو گئی ہے
چراغ بزم ماتم ہو گئی ہے
مآل ضبط پیہم ہو گئی ہے
مسرت حاصل غم ہو گئی ہے
تمنا جب بڑھی ہے اپنی حد سے
تو مایوسی کا عالم ہو گئی ہے
نہ جانے کیوں عداوت ہی عداوت ہے
سرشت ابن آدم ہو گئی ہے
ہے محو رقص ہر برگ چمن پر
بڑی بیباک شبنم ہو گئی ہے
ہنسی ہونٹوں پر آتے آتے اخترؔ
پیام گریۂ غم ہو گئی ہے
غزل
نگاہ لطف کیا کم ہو گئی ہے
علیم اختر