EN हिंदी
نگاہ حسن مجسم ادا کو چھوتے ہی | شیح شیری
nigah-e-husn-e-mujassam ada ko chhute hi

غزل

نگاہ حسن مجسم ادا کو چھوتے ہی

ظفر مرادآبادی

;

نگاہ حسن مجسم ادا کو چھوتے ہی
گنوائے ہوش بھی اس دل ربا کو چھوتے ہی

تمام پھول مہکنے لگے ہیں کھل کھل کر
چمن میں شوخی باد صبا کو چھوتے ہی

مشام جاں میں عجب ہے سرور کا عالم
تصورات میں زلف دوتا کو چھوتے ہی

نگاہ شوق کی سب انگلیاں سلگ اٹھیں
گلاب جسم کی رنگیں قبا کو چھوتے ہی

نظر کو ہیچ نظر آئے سب حسیں منظر
بس اک شعاع رخ جاں فزا کو چھوتے ہی

جو آنسووں سے ہوئی با وضو اکیلے میں
در قبول کھلا اس دعا کو چھوتے ہی

نہائیں شدت احساس کے اجالے میں
سماعتیں مرے سوز نوا کو چھوتے ہی

حصار ضبط جو ٹوٹا تو آنکھ بھر آئی
دیار غیر میں اک آشنا کو چھوتے ہی

لہو میں ڈوب کے کانٹے بنے چراغ ظفرؔ
رہ وفا میں ہم آشفتہ پا کو چھوتے ہی