EN हिंदी
نگاہ بد گماں ہے اور میں ہوں | شیح شیری
nigah-e-bad-guman hai aur main hun

غزل

نگاہ بد گماں ہے اور میں ہوں

یعقوب عثمانی

;

نگاہ بد گماں ہے اور میں ہوں
فریب آشیاں ہے اور میں ہوں

شریک‌ بے کسی آئے کہاں سے
زمیں پر آسماں ہے اور میں ہوں

ادھر کیا گھورتی ہے کسمپرسی
مرا عزم جواں ہے اور میں ہوں

سراپا گوش ہے صبح شب تار
کسی کی داستاں ہے اور میں ہوں

گھٹا جاتا ہے دم اے سوز احساس
تہہ دامن دھواں ہے اور میں ہوں

حوادث اب جسے چاہیں سراہیں
نصیب دشمناں ہے اور میں ہوں

قفس نغموں سے گونج اٹھتا ہے یعقوبؔ
امید خوش بیاں ہے اور میں ہوں