EN हिंदी
نگاہ اولیں کا ہے تقاضا دیکھتے رہنا | شیح شیری
nigah-e-awwalin ka hai taqaza dekhte rahna

غزل

نگاہ اولیں کا ہے تقاضا دیکھتے رہنا

عباس تابش

;

نگاہ اولیں کا ہے تقاضا دیکھتے رہنا
کہ جس کو دیکھنا اس کو ہمیشہ دیکھتے رہنا

نہ مجھ کو نیند آتی ہے نہ دل سے بات جاتی ہے
یہ کس نے کہہ دیا مجھ سے کہ رستہ دیکھتے رہنا

ابھی اچھے نہیں لگتے جنوں کے پیچ و خم اس کو
کبھی اس رہ سے گزرے گی یہ دنیا دیکھتے رہنا

دیئے کی لو نہ بن جائے طناب سرسری اس کی
میں دریا کی طرف جاتا ہوں خیمہ دیکھتے رہنا

کوئی چہرہ ہی ممکن ہے تمہارے جی کو لگ جائے
تماشا دیکھنے والو تماشا دیکھتے رہنا

کہ اب تو دیکھنے میں بھی ہیں کچھ محویتیں ایسی
کہیں پتھر نہ کر ڈالے یہ میرا دیکھتے رہنا

سرشک خوں کبھی مژگاں تلک آیا نہیں پھر بھی
کنارے آ لگے شاید یہ دریا دیکھتے رہنا

نگاہ سرسری تابشؔ محیط حسن کیا ہوگی
جہاں تک دیکھنے کا ہو تقاضا دیکھتے رہنا