نبھاؤ اب اسے جو وضع بھی بنا لی ہے
وگرنہ دہر تو اہل وفا سے خالی ہے
حریم دل میں تری آرزو نے روشن کی
وہ آگ جس نے شب زندگی اجالی ہے
تری نگاہ کرم ہے وگرنہ اے غم دوست
زمانہ کیا ترے شیدائیوں سے خالی ہے
ستم ہے میری طرف پیار سے نظر نہ کرے
وہ بت کہ جس میں مرے فن نے جان ڈالی ہے
بجا کہ حسن کا احساس ہے فریب نظر
مگر وہ نقش جو دل میں ہے کب خیالی ہے
افق سے گرد چھٹے تو خبر ملے شاید
سحر طلوع ہوئی ہے کہ ہونے والی ہے
اب اہل بزم غم تیرگی کریں تو کریں
ہمارے پاس تو جو شمع تھی جلالی ہے
ہوا کے دوش پہ اڑتی ہوئی خبر تو سنو
ہوا کی بات بہت دور جانے والی ہے
غزل
نبھاؤ اب اسے جو وضع بھی بنا لی ہے
حسن اختر جلیل