نے غرض کفر سے رکھتے ہیں نہ اسلام سے کام
مدعا ہم کو تو ساقی سے ہے اور جام سے کام
دل نالاں کو مرے کس کے ہے آرام سے کام
کوئی بے چین رہو اپنے اسے کام سے کام
اس چمن میں نہ کسی چشم سے پونچھے کوئی اشک
صبح تک ہم کو بھی شبنم یہی ہے شام سے کام
کیوں نہ افعی چلے ہر ایک جگہ مکڑا کر
نہ پڑا اس کو تری زلف سیہ فام سے کام
گر اکیلا کہیں مل جائے ہمیں تو دل کا
لیجے من مانتا اس شوخ گل اندام سے کام
ہوں اسیر اس کا جسے بعد گرفتاریٔ صید
نہ گرفتار سے مطلب رہے نے دام سے کام
ہے مبرا یہ زباں کہنے سے اب رام و رحیم
جن نے پایا ہے نشاں اس کو نہیں نام سے کام
چشم خورشید کو غرفے سے ترے دن سروکار
رات ہے دیدۂ شبنم کو لب بام سے کام
جو میں آغاز ترے کام کا دیکھا سوداؔ
وائے وہ دن کہ تجھے اس کے ہو انجام سے کام
غزل
نے غرض کفر سے رکھتے ہیں نہ اسلام سے کام
محمد رفیع سودا