نے فقہ نہ منطق نے حکمت کا رسالہ ہے
اس فن محبت کا نسخہ ہی نرالا ہے
خطرہ ہے مجھے اب تو چپ رہنے سے بھی اپنے
کیا ہے کہ نہ سوزش ہے وہ آہ نہ نالہ ہے
دل ہی نہ کھلے اپنا تو کیجیے کیا ورنہ
سبزہ ہے گلستاں ہے گلزار ہے لالہ ہے
کیوں کر نہ ثمر لاوے شاخ مژہ لخت دل
سو خون جگر سے میں اس تیر کو پالا ہے
ہے دل میں تو وہ لیکن دکھلائی نہیں دیتا
باہر تو اندھیرا ہے اور گھر میں اجالا ہے
تعجیل نہ کر اے دل آنے تو لگا ہے وہ
مل جائے گا بوسہ بھی کیا منہ کا نوالہ ہے
کیفیت مے خانہ بس دیکھ لے اب کیا ہے
ساقی ہے نہ صہبا ہے شیشہ ہے نہ پیالہ ہے
یہ چال اگر ہے تو رہنے کا نہیں اب دل
بے طرح سے اس نے تو کچھ پاؤں نکالا ہے
تو ہوتا تو کیا ہوتا کل نام ترا لیتے
گلشن میں حسنؔ کو میں گرنے سے سنبھالا ہے
غزل
نے فقہ نہ منطق نے حکمت کا رسالہ ہے
میر حسن