نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
یاں شعر پرستی ہے یا حسن پرستی ہے
ساعد سے ترے شعلے یوں حسن کے اٹھتے ہیں
ہاتھوں میں ترے گویا مہتابئ دستی ہے
بیماریٔ سل سے کم سمجھو نہ غم الفت
یہ سل مرے سینے سے اب کوئی اکستی ہے
معمورۂ دل اپنا ویران رہا برسوں
وہ کون سی بستی ہے کیا جانے جو بستی ہے
مسی کی دھڑی اس کی نظروں سے جو ہے غائب
یارب وہ سیہ بدلی کیدھر کو برستی ہے
بلبل کو قفس سے کب صیاد تو چھوڑے گا
نظارۂ گل کو یہ ہر سال ترستی ہے
سر دے کے بھی ہاتھ آوے گر تیغ خم ابرو
اے مصحفیؔ ہم تو بھی سمجھیں ہیں کہ سستی ہے
غزل
نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
مصحفی غلام ہمدانی