نے آدمی پسند نہ اس کو خدا پسند
ہے آئنے میں قید مرا آئنا پسند
دو چار دن بھی ہم سے نباہی نہیں گئی
وہ معتدل مزاج تھا میں انتہا پسند
وہ خود فریب شخص تھا پتھر شناس تھا
آیا نہ اس کو کوئی بھی اپنے سوا پسند
پوچھے ہے ہم نے کاہے کیا کفر اختیار
غفلت پسند ہے نہ ہمیں آسرا پسند
غوغائے مرگ چاروں طرف پھیلنے لگا
کیا اس جہاں کو چھوڑ گئے بادیہ پسند
اس پر ہی بھیجتا ہے وہ آفت بھی موت بھی
شاید اسے غریب کا بچہ ہے ناپسند
آکاش ایک شخص ہے دنیا سے مختلف
پہلی نظر میں ہی تمہیں آ جائے گا پسند
غزل
نے آدمی پسند نہ اس کو خدا پسند
امداد آکاش