نظارۂ پیہم کا صلا میرے لیے ہے
ہر سمت وہ رخ جلوہ نما میرے لیے ہے
اس چہرۂ انور کی ضیا میرے لیے ہے
وہ زلف سیہ تاب دوتا میرے لیے ہے
زنہار اگر اہل ہوس تجھ پہ فدا ہوں
یہ مرتبۂ صدق و صفا میرے لیے ہے
بن کر میں رضاکار مہیائے فنا ہوں
آوازۂ حق بانگ درا میرے لیے ہے
خوشنودۂ فجار کے پیرو ہیں یزیدی
تقلید شہ کرب و بلا میرے لیے ہے
محروم ہوں مجبور ہوں بے تاب و تواں ہوں
مخصوص ترے غم کا مزا میرے لیے ہے
سرمایۂ راحت ہے فنا کی مجھے تلخی
اس زہر میں سامان بقا میرے لیے ہے
جنت کی ہوس ہو تو میں کافر، کہ پریشاں
اس شوخ کی خوشبوئے قبا میرے لیے ہے
پہلے بھی کچھ امید نہ تھی چارہ گروں کو
اور اب تو دوا ہے نہ دعا میرے لیے ہے
مر جاؤں گا مے خانے سے نکلا جو کبھی میں
نظارۂ مے روح فزا میرے لیے ہے
تشخیص طبیباں پہ ہنسی آتی ہے حسرتؔ
یہ درد جگر ہے کہ دوا میرے لیے ہے
غزل
نظارۂ پیہم کا صلا میرے لیے ہے
حسرتؔ موہانی