نظروں کی ضد سے یوں تو میں غافل نہیں رہا
پہلو میں اے مشیرؔ مگر دل نہیں رہا
اے دل تصورات کا حاصل نہیں رہا
کوئی مری نظر کے مقابل نہیں رہا
موجوں پہ اعتماد نہ کیوں کر کرے کوئی
ساحل تو اعتبار کے قابل نہیں رہا
آداب بزم ناز پہ اے دل نظر تو ہے
مانا کہ درد ضبط کے قابل نہیں رہا
وہ چشم عشوہ کار ہے آمادۂ کرم
اب درد اعتبار کے قابل نہیں رہا
جلووں کا احترام نگاہوں میں ہے مشیرؔ
میں اپنے فرض سے کبھی غافل نہیں رہا
غزل
نظروں کی ضد سے یوں تو میں غافل نہیں رہا
مشیر جھنجھانوی